’کسی بھی میڈیا گروپ کو اشتہار دینا نہ دینا حکومت کا قانونی اختیار ہوتا ہے۔ تاہم جتنا حصہ بنتا ہے وہ اشتہار ہم سب کو ہی دیتے ہیں۔ لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ڈان کو لازمی ہی اشتہار دینا ہیں،‘حکومت پنجاب
سٹاف رپورٹرنوائے وقت
اسلام آباد:پاکستان او برطانیہ کے ایک بڑے میڈیا گروپ ڈان(روزنامہ نوائے وقت ، ڈان ٹی وی ،ڈیلی ڈان ،اوکے ٹی وی) نے اپنے حالیہ اخباری اداریے میں الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے گذشتہ پانچ ماہ سے ان کے اشتہارات روک رکھے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ (روزنامہ نوائے وقت ، ڈان ٹی وی ،ڈیلی ڈان ،اوکے ٹی وی) کے ایک عہدیدار نے ڈاکٹر اختر گلفام نے گفتگو میں کہا کہ ’حکومتی پالیسیوں سے متعلق حقائق پر مبنی خبروں کی وجہ سے وفاقی اور پنجاب حکومتوں اور سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے ڈان کے سرکاری اشتہار روکے ہوئے ہیں۔‘
البتہ اخبار کے چھ مارچ کے شمارے میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اشتہارات شائع ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ طویل عرصے سے اشتہار بند ہونے سے ادارہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ پنجاب (ڈی جی پی آر) غلام صغیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کسی بھی میڈیا گروپ کو اشتہار دینا نہ دینا حکومت کا قانونی اختیار ہوتا ہے۔ تاہم جتنا حصہ بنتا ہے وہ اشتہارات ہم سب کو ہی دیتے ہیں۔ لیکن کوئی پابندی نہیں کہ ڈان کو لازمی ہی اشتہار دینے ہیں۔‘
اس اقدام پر پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت ڈان جیسے اداروں کے اشتہارات بند کر کے آزادی صحافت اور تنقیدی ادارتی پالیسیوں کی بقا کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
لندن میڈیا کلب اور پاکستان فیڈرل یونین جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی جانب سے بھی ڈان گروپ کے سرکاری اشتہارات بند کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بھی دوسرے قومی میڈیا گروپوں کے مطابق اشتہارات جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پی آر غلام صغیر کے بقول، ’ڈان انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے اشتہارات کیوں بند ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کے مطابق سرکاری اشتہارات جاری کرتی ہے۔ جس اخبار یا چینل کو چاہے حکومت اشتہار دے جس کو نہ چاہے اسے نہ دے۔ یہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ بلیک میل کر کے یا زبردستی اشتہارات حاصل کر سکے۔ ہم اپنی پالیسی کے مطابق اشتہار دیتے ہیں جتنا ڈان کو دینا ہوتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔‘