مئی 2024 سے اپریل 2025 کے دوران 5 صحافی قتل کیا گیا، کم از کم 82 صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز کو مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا ، رپورٹ
سٹاف رپورٹر نوائے وقت
لندن:فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم رپورٹ برائے 2025 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا اپنی بقا کے خطرے اور بڑھتی ہوئی پابندیوں کے ماحول، بگڑتی ہوئی سیکیورٹی اور ملازمتوں کے تحفظ، میڈیا اور اس کے پیشہ ور افراد کی پیشہ ورانہ سالمیت کو درپیش اہم مشکلات کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔
’آزادی اظہار اور مفاد عامہ کی صحافت محاصرے میں ہے’ کے عنوان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کی بقا کا بحران جنوری 2025 میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (پیکا) میں ترامیم کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جس سے اب حکام کے لیے صحافیوں اور مخالفین کو گرفتار کرنا، جرمانے کرنا اور جیل میں ڈالنا آسان ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بقا کا خطرہ سنگین ہے کیونکہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں ایسی صورتحال شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے، فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ یہ صورتحال جمہوریت کی بنیاد کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور ریاست سخت سوالات کو برداشت کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ سفاک ہے۔
عدنان رحمت کی تحریر کردہ اس رپورٹ میں مئی 2024 سے اپریل 2025 کے دوران پاکستان میں آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ چیلنجز ملک میں میڈیا کی آزادی کے لیے وسیع تر سکڑتی ہوئی جگہ کی عکاسی کرتے ہیں، شریک مصنف اقبال خٹک نے کہا کہ میڈیا کی اس طرح کی گرتی ہوئی جگہ کا مطلب ہے کہ شہریوں کو معلومات تک بہت کم رسائی حاصل ہوگی جن کے بارے میں انہیں جاننے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں زیر بحث مدت کے دوران 5 صحافیوں کو قتل کیا گیا تھا، اس عرصے میں سندھ میں 3 اور خیبر پختونخوا میں 2 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ کم از کم 82 صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز کو مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
خیبر پختونخوا صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک صوبہ بن کر ابھرا جہاں 22 کیسز درج کیے گئے جبکہ اسلام آباد میں صحافیوں کے خلاف 20 اور پنجاب میں 18 کیسز درج کیے گئے، بلوچستان میں 4 اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک کیس ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 14 صحافیوں کو قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر پیکا قانون کے تحت تھے جبکہ 8 کیسز میں صحافیوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بڑھتی ہوئی سنسرشپ، قانونی پابندیاں، صحافیوں کے خلاف تشدد، میڈیا اور اس کے حامیوں کی سالمیت پر غلط معلومات کے اثرات، خواتین میڈیا پریکٹیشنرز کو درپیش چیلنجز، میڈیا کی آزادی پر سیاسی تقسیم کے اثرات اور صحافیوں کی حفاظت ایسے اہم شعبے ہیں جن کی نشاندہی آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کو درپیش موجودہ صورتحال کی اہم وجوہات کے طور پر کی گئی ہے۔